156

کیا مطالعے کا شوق کم ہوگیا ہے؟

یہ بڑا دلچسپ سوال ہے کیوں کہ ویسے تو یہ ادبی ہے لیکن اس میں نفسیات اور سماجیات کا بہت اثر ہے۔ اور یہ تینوں ہی میرے اہم موضوع ہیں۔ انسان میں مطالعے کا شوق کہانیاں بنانے سنانے اور لکھنے کا شوق قدرتی ہوتا ہے۔ بچے بولنا شروع کرتے ہیں تو چھوٹی چھوٹی کہانیاں سناتے ہیں۔ لکھنا شروع کرتے ہیں تو بھی ٹوٹے پھوٹے الفاظ سے کہانی بناتے ہیں۔ لیکن تعلیمی سفر شروع کرتے ہیں تو کتاب سے ان کا تعارف ایک خوف ناک انداز میں کروایا جاتا ہے۔ محبت کرنے والے والدین و اساتذہ کتاب اور تعلیم کے معاملے میں جلاد بنے دکھائی دیتے ہیں۔ یہاں سے لاشعوری طور پہ بچہ کتاب سے دور ہونا شروع ہوتا ہے۔ اکثر والدین نصابی کتب کے علاوہ کسی کتاب کی طرف بچے کی توجہ دیکھ کر بہت شدید منفی ردعمل دکھاتے ہیں۔ رسالے پھاڑ دیتے ہیں یا جلا دیتے ہیں ڈانٹتے ہیں۔ یعنی کتاب کے تناظر میں بچے ہر ممکن منفی رویہ سہتے ہیں۔ اس کے بعد کتاب کی طرف دلچسپی نہ ہونا قدرتی رویہ ہوگا۔ ایسے میں آپ کے سوال کا جواب بھی واضح ہوجاتا ہے کہ جی بالکل ہمارے یہاں مطالعے کا خاص طور سے اردو ادب کے مطالعے کا رجحان کم ہوتا جارہا ہے۔ رہی سہی کسر موبائل اور وڈیو گیمز نے پوری کردی ہے۔ بچوں کے تخیل کے لیے کچھ بچا ہی نہیں۔ وہ نسل جو خود کو کتاب دوست کہنے میں فخر کرتی تھی اس نے خود ہی اگلی نسل کو کتاب سے دور کردیا ایسے میں یہ الزام نئی نسل کو دینا کہ وہ کتاب پڑھنا نہیں چاہتے منطقی نہیں۔

(نقل وچسپاں )

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں