حلال کے شعبہ میں بنیادی اور ضروری قابلیت کے زمرے میں، حلال سے متعلقہ شرعی امور میں مہارت، ملکی اور بین الاقوامی مروجہ حلال معیارات سے پھرپور واقفیت، حلال سے متعلقہ مختلف ممالک کی پالیسیوں اور قوانین کے ساتھ ساتھ درکار فنی و سائینسی مہارتوں میں فوڈ سائنس ۔کیمسٹری ۔بائیو کیمسٹری ۔فوڈ مائیکرو بایولوجی۔فارمیسی اور لیدر سے متلقہ ماہرین فن کی ضرورت ہوتی ہے کیونکہ حلال میں سب سے زیادہ اشیائے خورد و نوش کا استعمال ہوتا جس کے لئے ماہر غذا ہونا بہت ضروری ہے ۔ ایسے افراد ہی بہترین طریقے سے حلال اتھارٹی میں یہ کام انجام دے سکتے ہیں ۔ اسی طرح باقی تعلیمی قابلیتیں جیسے حلال ادویات کے لئے فارمیسی کے متعلقہ شعبے کا ایکسپرٹ ہی صحیح کام کر سکتا ہے ۔ حلال کوسمیٹکس کے کیمسٹری کی ضرورت ہوتی ہے ۔اسی طرح دیگر شعبوں کے لئے بھی۔
لیکن انجینیرنگ کا حلال سے کیا تعلق؟اینوارومنٹل سائنسس کا حلال سے کیا لینا دینا
عجب بات ہے کہ پاکستان حلال اتھارٹی کے ڈائریکٹر جنرل ہی صرف غیر متعلقہ تعلیمی قابلیت یعنی انجینیرنگ ڈگری کے حامل نہیں بلکہ ان کے appoint کردہ افراد بھی حلال سے اتنے ہی نابلد ہیں جتنے خود ڈی جی صاحب ۔ مثال کے طور پر انجینیرنگ ڈگری کے حامل جناب محب زمان صاحب کا حلال اتھارٹی میں 19ویں گریڈ میں بھرتی کے لئے انتخاب فوڈ سائنسس میں اعلی تعلیمی قابلیتوں کے حامل پی آیچ ڈی حضرات کو انٹرویو میں یکسر نظر انداز کر کے غیر متعلق اور منظور نظر افراد کا انتخاب کیا گیا۔اتنے اعلی عہدوں پر ایسے افراد کی تقرری حلال اتھارٹی سے منسلک قومی اور بین الاقوامی امور کے ساتھ بہت بڑے ظلم کے مترادف ہے ۔
اسی طرح عینی نام کی اک خاتون جن کی اینوارومنٹل سائنسس اور باٹنی میں تعلیم ہے انکو بھی حلال اتھارٹی میں 19 ویں گریڈ میں بھرتی کرنے کی پوری کوشش کی گئ ۔ مزید براں یہ کہ گریڈ 19 میں بھرتی ہو جانے کا علم ان خاتون اور کچھ دیگر افراد کو انٹرویو سے کم از کم اک ماہ پہلے سے تھا کہ انھیں کا appointment ہونا ہے ۔ جبکہ ان کے مقابل انٹرویو دینے والےان سے زیادہ اہل، محنتی حلال اور ریگولیشن سے متعلق تجربہ کار اشخاص کو کوئ اہمیت نہیں دی گئی۔
ڈی جی صاحب کا ڈھائ سال کے عرصہ میں کچھ نا کر سکنا ان کی حلال سے غیر دلچسپی کا کھلا ثبوت ہے اور اس کی اک اور وجہ متعلقہ تعلیمی قابلیت کا نا ہونا بھی ہے ۔ پھر اس پر بھی مزید ستم یہ کہ ان کے appoint کردہ افراد بھی اس ڈی جی کی طرح حلال کو چلانے کی اہلیت نہیں رکھتے انھیں صرف اعلی گریڈ سے مطلب ہے اس قسم کے افراد کے لئے ڈی جی کی پیہم کوشش لمحہء فکریہ ہے ۔
ڈی جی پی ایچ اے کا تعلق بھی اسی ادارے یعنی PSQCA سے ہے جہاں سے گزشتہ چند سالوں سے مس عینی کا ہے۔ ان خاتون کا غیر قانونی تقرر PSQCA میں اک ایسے شخص نے کیا جو PSQCA کے شعبہ finance میں خود بھی غیر قانونی طریقوں سے گریڈ 7 سے 18 میں ترقی پاتا رہا اور آجکل نیب میں کئی ارب کی کرپشن کے
کیس بھگت رہا ہے ۔
2015 میں 2 یا 4 دن کے لئے یہی شخص سکریٹری PSQCA کے عہدے پہ فائز ہوا اور مس عینی جوکہ کسی سفارش کے ساتھ اس زمانے میں PSQCA میں ڈیپوٹیشن پہ آئیں تھیں جب کہ Deputation ممنوع تھی
اور اس ادارے کو بھی انکی کوئ ضرورت نہیں تھی ۔
اسی شخص نے مس عینی کو غیر قانونی طور پر بناء قانونی تقاضے نبھائے اور متعلقہ منسٹری کی اجازت کے بغیر absorb کر لیا۔
دوسری جانب ڈی جی پی ایچ اے پر دہری شہریت رکھنے اور کرپشن میں ملوث ہونے کے بھی الزامات ہیں ۔
ارباب اختیار سے مودبانہ درخواست ہے کہ حلال کو صحیح معنوں میں ملک کے لیے کارآمد بنانا ہے تو ان سے نجات حاصل کرکے ایماندار اور متعلقہ افراد کو اس کام میں آگے لایا جائے تاکہ حلال اتھارٹی اپنے اصل مقصد یعنی پاکستان کی اقتصادی ترقی کی راہ پر گامزن ہو اور ملکی اور بین الاقوامی سطح پر مسلمانوں کو صحیح معنوں میں حلال اشیاء کی دستیابی کو یقینی بنایا جا سکے
98