196

فرہنگ آصفیہ

رہزن ہمت : ہمت کو زائل کر دیا
تن آسانی : آرام طلبی
جو : نہر
اصلیت : اسلام
جمعیت : قومی وحدت یا اتحاد
گل : اسلام
پریشاں کاروانِ بُو ہوا : مسلمان منتشر ہو گئے
دل بیگانۂ پہلو ہوا : اگر فرد قوم سے بیگانہ ہوا تو زندہ رہنا محال ہے.

شرح اول : 1- اس بند میں مسلمانوں کو اُن کے زوال کے اسباب سے آگاہ کرتے ہیں کہ اے مسلمان تیرے اندر حکومت، دولت اور عشرت کی بنا پر تن آسانی کا مرض پیدا ہو گیا ہے. جب تک تجھ میں صحرائی اور سپاہیانہ زندگی باقی رہی تو حکومت کرتا رہا لیکن جب تو گلشن (قلعہ) میں آ گیا تو گھٹ کر چھوٹی سی نہر رہ گیا.
2- جب تک مسلمان اپنی اصلیت (اسلام) پر قائم تھا یعنی اسلامی تعلیمات پر عمل پیرا رہا تو اس میں اجتماعی شان (جو اسلام کا امتیاز ہے) بھی موجود رہی لیکن جب اُس نے اسلامی اصول ترک کر دئیے تو دنیا اسی طرح پریشان، منتشر اور آواره ہو گیا جس طرح غنچہ سے خوشبو نکل کر بکھر جاتی ہے.
3- اے مسلمان اگر تو رازِ حیات سے آگاہ ہونا چاہتا ہے تو قطرہ کی زندگی کا مطالعہ کر لے. قطرہِ آب تو ایک ہی ہے لیکن یہی پانی کا قطرہ کبھی موتی بن جاتا ہے، کبھی شبنم، کبھی آنسو یہ بات کیا ہے؟ صرف یہ کہ وہ قطرہ اپنی اصل پر رہ کر اپنے آپ کو مختلف صورتوں میں تبدیل کرتا رہتا ہے. اسی طرح اگر مسلمان اپنی اصل پر قائم رہے اور ملت سے رابطہ استوار رکھے تو دنیا کی ہر جماعت میں جا کر کام کر سکتا ہے اور ہر جگہ ظاہری حالت میں تبدیلی کے باوجود اپنے آپ کو زندہ رکھ سکتا ہے اور دنیا کے لیے مفید بن سکتا ہے.
4- اے مسلمان ملت سے ربط و ضبط، فرد کے حق میں، اور اس کی انفرادی زندگی کی بقا کے لیے اشد ضروری ہے (سب سے بڑی دولت ہے). اگر فرد اپنی قوم سے بیگانہ ہو جائے تو زندہ نہیں رہ سکتا.
5- اے مسلمان دنیا میں جو تیری آبرو باقی تھی وہ محض اس بنا پر تھی کہ تیرے اندر ملت کا احساس موجود تھا اور تجھ میں اجتماعی شان پائی جاتی تھی لیکن جب تو نے اجتماعی مفادات کی بجائے ذاتی مفادات کی فکر شروع کر دی، جب افراد ملت سے اور مفادِ ملی سے بیگانہ ہو گئے تو دنیا بھر میں رسوا ہوا.
6- اے مسلمان یاد رکھ کہ فرد کی زندگی ملت سے ربط قائم رکھنے پر موقوف ہے. جس طرح شاخ کی زندگی درخت سے وابستہ رہنے پر منحصر ہے یا جس طرح موج کا وجود اُسی وقت تک باقی رہتا ہے جب تک وہ دریا میں رہتی ہے. اگر موج اپنا تعلق دریا سے منقطع کر لے تو ایک آن میں اُس کا وجود ختم ہو جائے گا. قوم سے جدا ہو کر کسی مسلمان فرد کا کوئی وجود باقی نہیں رہتا. ہاں یہ ضرور رہتا ہے کہ غیر اقوام اپنے مقاصد کی تکمیل کے لیے اُس فرد کو تھوڑے دنوں کے لیے پارٹی کا صدر یا راشٹرپتی بنا دیتی ہیں.

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں