230

فردوس میں ایک مکالمہ

اس نظم میں اقبال جنت میں ہونے والے ایک مکالمے کا تصور پیش کرتے ہیں جو مولانا الطاف حسین حالی اور شیخ سعدی کے درمیان ہوتا ہے. ہمارے اقبال نے اس نظم/ مکالمے کے مفہوہو تشریح کو پیش کرنے کی پوری کوشش کی ہے، ان شاء اللہ یہ تصور ہم سب کے ذہن میں بیٹھ جائے گا . پہلے ایک دفعہ مکمل نظم پر نظر ڈالتے ہیں ،

ہاتِف نے کہا مجھ سے کہ فردوس میں اک روز
حالیؔ سے مخاطب ہوئے یوں سعدیِؔ شیراز

اے آنکہ ز نورِ گُہرِ نظمِ فلک تاب
دامن بہ چراغِ مہ و اخترزدہ ای باز!

کچھ کیفیتِ مسلمِ ہندی تو بیاں کر
واماندۂ منزل ہے کہ مصروفِ تگ و تاز

مذہب کی حرارت بھی ہے کچھ اس کی رگوں میں؟
تھی جس کی فلک سوز کبھی گرمیِ آواز

باتوں سے ہُوا شیخ کی حالیؔ متاَثّر
رو رو کے لگا کہنے کہ “اے صاحبِ اعجاز

جب پیرِ فلک نے وَرق ایّام کا اُلٹا
آئی یہ صدا، پاؤ گے تعلیم سے اعزاز

آیا ہے مگر اس سے عقیدوں میں تزلزل
دنیا تو ملی، طائرِ دیں کر گیا پرواز

دِیں ہو تو مقاصد میں بھی پیدا ہو بلندی
فطرت ہے جوانوں کی زمیں گیر زمیں تاز

مذہب سے ہم آہنگیِ افراد ہے باقی
دِیں زخمہ ہے، جمعیّتِ مِلّت ہے اگر ساز

بنیاد لرَز جائے جو دیوارِ چمن کی
ظاہر ہے کہ انجامِ گُلستاں کا ہے آغاز

پانی نہ مِلا زمزمِ ملّت سے جو اس کو
پیدا ہیں نئی پَود میں الحاد کے انداز

یہ ذکر حضورِ شہِ یثرِبؐ میں نہ کرنا
سمجھیں نہ کہیں ہند کے مسلم مجھے غمّاز

“خُرما نتواں یافت ازاں خار کہ کشتیم
دیبا نتواں بافت ازاں پشم کہ رشتیم”

(سعدیؔ)

تشریح:-
اقبالؒ فرماتے ہیں کہ مجھ سے جنت میں ایک روز ہاتف (غیب کی آواز یا عرب کا ایک ایسا کردار جس کی آواز تو سنائی دے لیکن وہ خود نہ دکھائی دے) نے کہا کہ اے اقبال تمیں جنت میں پیش آنی والی ایک گفتگو کے متعلق بتاتا ہوں… ہوا ایسے کہ شیخ سعدی شیرازی نے مولانا الطاف حسین حالی سے گفتگو شروع کرتے ہوئے کہا کہ، اے حالی مجھے ذرا بتاؤ کہ یہ کون ہے جس کی شاعری کے موتیوں سے آسمان روشن ہے، اور شاہین چاند اور ستاروں کی روشنیوں میں پرواز کرتا ہے.
اور مجھے ہندوستان کے مسلمانوں کا حال بتاؤ کہ وہ کوششوں میں مصروف ہیں کہ تھک ہار کے بیٹھ گئے ہیں؟ مسلمانوں میںدینِ اسلام کی گرمی/جذبہ ابھی بھی جوش مارتا ہے کیا؟ کہ جس کی ایک صدا بھی آسمان کو چیر دیا کرتی تھی.
اب یہاں کیفیت بیان کرتے ہیں اقبال کہ شیخ سعدی کی باتوں سے حالی کافی شرمندہ ہوئے اور رونے لگے، پھر روتے ہوئے ہی جواب دینے لگے کہ،
اے صاحبِ اعجاز، میں کیا بتاؤں آپ کو کہ آپ سگ بھلا کیا چھپا ہو سکتا ہے.
جب پیرِ فلک (اللہ تعالی) نے وقت کو بدلا، ہم غلام ہوئے، ہماری حالت بد تر ہوئ، ہم پر امتحان آیا، تو پہلے جہاں لوگ اللہ کی خوشنودی کی اعزاز سمجھتے تھے اب وقت ایسا بدلا کہ ہر کوئ کہنے لگا کہ تعلیم حاصل کرنے سے عزت حاصل ہوگی، تعلیم سے کامیاب ہو جاؤ گے.
لیکن اے شیخ! اس سے ہمارے عقیدے اور ایمان کمزور ہو گئے، ہم نہ دنیا کے رہے نہ دین کے. دنیا تو ملی تھوڑی بہت لیکن دین ہمارے روح و بدن سے خارج ہوتا چلا گیا. دین سے ہی مقاصد میں بلندی پیدا ہوتی ہے لیکن یہاں کے جوان تو خود کو مفلوج کر کے بیٹھے ہیں گویا. مذہب کے ذریعے ہی افراد میں ہم آہنگی ہے ، قوم کا آپس اتحاد ہی دین کی سربلندی ہے. لیکن اس سب کی بنیاد دین ہے جس کو دنیا سے بدل دیا گیا ہے. اور جب بنیاد ہی ہِل جائے کسی چمن کی تو انجام تو اس گلستان کا واضح ہے.
حالی مزید بتاتے ہیں کہ اے شیخ! نئ جنریشن کو ملت، اتحاد اور دین کا بنیادی سبق نہیں دیا گیا لہٰذا اس میں الحاد (اللہ کو نہ ماننا) کے رنگ نمایاں ہیں.
لیکن اے شیخ یہ جو حال آپ کو میں اپنی قوم کا بتا رہا ہوں اس کا ذکر نبی پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے مت کرنا کہ کہیں ہندوستان کے مسلمان مجھے غماز (عیب بیان کرنے والا) ہی نہ سمجھ بیٹھیں.

بانگ درا سے اقتباس

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں