اگر کوئی شخص نماز کے دوران رکعات کی تعداد بھول جائے اور اس کو یاد نہ ہو کہ اس نے چار رکعت پڑھی ہیں یا تین ؟ تو اس کا حکم یہ ہے کہ:
1- اگر اس کا بھولنا پہلی مرتبہ ہوا ہے یا زندگی میں شاذ ونادر ایسا ہو تو اسے نئے سرے سے نماز پڑھنی چاہیے۔
2- اگر شک ہوتا رہتا ہے اور رکعتوں کی تعداد بھولتا رہتا ہے تو پھر غالب گمان پر عمل کرنا چاہیے، یعنی جتنی رکعتیں غالب گمان سے اس کو یاد پڑیں، اسی قدر رکعتوں کے بارے میں یہ خیال کرے کہ پڑھ چکا ہے، اگر اس حساب سے تین ہوچکی ہیں تو مزید ایک رکعت پڑھ کر نماز مکمل کرے اور سجدہ سہو کرے، اور اگر اس کے حساب سے چار رکعت ہوچکی ہیں تو آخر میں سجدہ سہو کرکے نماز مکمل کرلے۔
3- اور اگر غالب گمان کسی طرف نہ ہو تو کمی کی جانب اختیار کرے مثلاً کسی کو تین یا چار رکعت میں شک ہوجائے اور یہ شک پہلی مرتبہ نہ ہوا ہو اور غالب گمان کسی طرف نہ ہو تو اس کو چاہیے کہ تین رکعتیں شمار کرے اور ایک رکعت مزید پڑھ کر نماز پوری کرے اور آخر میں سجدہ سہو بھی کرے،اس صورت میں تیسری رکعت پر قعدہ بھی کرے۔
آخری دونوں صورتوں میں اگر سجدہ سہو کرنا بھول گیا اور نماز کا وقت باقی ہے تو اس نماز کا اعادہ کرنا ضروری ہے، اور اگر نماز کا وقت گزرگیا ہو تو اب اعادہ کرنے کی تاکید کم ہے، البتہ اس نماز کا اعادہ کرلینا زیادہ بہتر ہے۔
فتاویٰ ہندیہ میں ہے:
“من شك في صلاته فلم يدر أثلاثا صلى أم أربعا وكان ذلك أول ما عرض له استأنف الصلاة، كذا في السراج الوهاج ثم الاستقبال لا يتصور إلا بالخروج عن الأول وذلك بالسلام أو الكلام أو عمل آخر مما ينافي الصلاة، والسلام قاعدا أولى ومجرد النية يلغو ولا يخرج من الصلاة، كذا في التبيين.
ثم اختلف المشايخ في معنى قوله أول ما عرض له قال بعضهم: إن السهو ليس بعادة له لا أنه لم يسه في عمره قط وقال بعضهم: معناه أنه أول سهو وقع له في تلك الصلاة والأول أشبه، كذا في المحيط، وإن كثر شكه تحرى وأخذ بأكبر رأيه، كذا في التبيين.
وإن لم يترجح عنده شيء بعد الطلب فإنه يبني على الأقل فيجعلها واحدة فيما لو شك أنها ثانية وثانية لو شك أنها ثالثة وثالثة لو شك أنها رابعة وعند البناء على الأقل يقعد في كل موضع يتوهم أنه محل قعود فرضا كان القعود أو واجبا كي لا يصير تاركا فرض القعدة أو واجبها۔۔۔۔۔۔۔۔وإذا شك في صلاته فلم يدر أثلاثا صلى أم أربعا وتفكر في ذلك كثيرا ثم استيقن أنه صلى ثلاث ركعات فإن لم يكن تفكره شغل عن أداء ركن بأن يصلي ويتفكر فليس عليه سجود السهو وإن طال تفكره حتى شغله عن ركعة أو سجدة أو يكون في ركوع أو سجود فيطول تفكره في ذلك وتغير عن حاله بالتفكر فعليه سجود السهو استحسانا، هكذا في المحيط.”
(الفتاوى الهندية، 130/1 ط: دار الفکر)
فقط والله اعلم