صورتِ مسئولہ میں ’’آرڈر گو ایپ‘‘ کےذریعےکام کرنے کےطریقے بیان کیے گئے جن سے منافع کمانے کی تفصیل یہ ہے:
اولًا اشتہارات میں جان دار کی تصاویر اور بہت سے غیر شرعی اشتہارات ہوتے ہیں، اس لیے اشتہارات پر کلک کرکے کمانا جائز نہیں ہے، اگر اشتہارات جان دار کی تصویر اور فحش چیزوں سے خالی ہو تو بھی اشتہارات پر کلک کرنے کے ساتھ جو کمائی مشروط ہو، وہ مندرجہ ذیل خرابیوں کی وجہ سے حلال اور طیب نہیں ہے :
۱) اشتہارات پر کلک کے بدلہ جو عوض ملتا ہے وہ شرعًا اجرت ہوگی اور اجرت کا معاملہ درست ہونے کے لیے ضروری ہے کہ اجرت جس کام کے بدلہ مل رہی ہے اس کام پر اجارہ معمول بہ ہو اور وہ کام ایسا ہو جس کو عقلِ سلیم معتدبہ کام تسلیم کرے۔ اشتہار پر کلک کرنا اور کوئی ایسا معتد بہ کام نہیں ہے جس پر اجارہ کا معاملہ جائز ہو اور نہ ہی یہ کوئی معمول بہ کام ہے جس پر اجارہ کا معاملہ ہوتا ہو؛ لہذا یہ اشتہار پر کلک کر نےوالے اجارہ کا معاملہ فاسد ہوگا اور اجرت حلال نہیں ہوگی اور اس وجہ سے یہ منافع جائز نہیں ۔
۲) کوئی چیز بائع( فروخت کرنے والے) کے پاس موجود ہی نہ ہو تو وہ محض اس چیز کا اشتہار دکھا کر آگے فروخت کرے تو شرعاً ایسی خرید وفروخت جائز نہیں کیوں کہ اس میں قبضہ نہیں ہوتا، لہٰذا مذکورہ کمپنی کی طرف سے ملنے والے اشتہارات پر محض پہلی مرتبہ کلک کرنے سے’’خریدلینا‘‘اوردوسری مرتبہ کلک کرنےسے ’’فروخت کرلینا ‘‘ کا طریقہ بھی شرعاً جائز نہیں اور اس کے منافع حاصل کرنا بھی جائز نہیں ۔
۳) نیز اس معاملے میں جس طریق پر اس ایپ کی پبلسٹی کی جاتی ہے، جس میں پہلے ایڈ ہونے والےکوہر نئے شخص کے ایڈ کرنے پرکمیشن ملتا رہتا ہے اور اس عمل میں ایڈ کرنے والے لوگ محض لوگوں کو ایڈ کرکے نفع کماکر زیادہ سے زیادہ مال ہتھیانے کے درپے ہوتےہیں ،خرید و فروخت اور کسی بھی معتد بہ محنت والے عمل میں ان کا کوئی عمل دخل نہیں ہوتا، لہٰذا ایسی صورت میں بھی کمیشن لینا یا لوگوں کوایڈکرنے کی اجرت لینا شرعاً جائز نہیں ۔
لہٰذا سوال میں مذکور آرڈر گو ایپ کے ذریعے منافع کمانا جائز نہیں ۔
شعب الایمان میں ہے:
“عن سعيد بن عمير الأنصاري، قال: سئل رسول الله صلى الله عليه وسلم أي الكسب أطيب؟ قال: ” عمل الرجل بيده، وكل بيع مبرور.”
(كتاب الإيمان،التوكل بالله عزوجل و التسليم لأمره تعالي في كل شيئ،434/2،ط:مكتبة الرشد،رياض)
’’ترجمہ:آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے پوچھا گیا کہ سب سے پاکیزہ کمائی کو ن سی ہے؟تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ آدمی کا خود اپنے ہاتھ سے محنت کرنا اور ہر جائز اور مقبول بیع‘‘۔
فتاوی شامی میں ہے:
“مطلب في أجرة الدلال ، قال في التتارخانية : وفي الدلال والسمسار يجب أجر المثل ، وما تواضعوا عليه أن في كل عشرة دنانير كذا فذاك حرام عليهم .وفي الحاوي : سئل محمد بن سلمة عن أجرة السمسار ، فقال : أرجو أنه لا بأس به وإن كان في الأصل فاسداً؛ لكثرة التعامل وكثير من هذا غير جائز ، فجوزوه لحاجة الناس إليه كدخول الحمام”.
(كتاب الإجارة،مطلب في أجرة الدلال،63/6،ط: سعيد)
فقط والله اعلم